احوال ایک شادی کا جہاں کھانا ضائع نہیں ہوا !

احوال ایک شادی کا جہاں کھانا ضائع نہیں ہوا !

ہوگئے نہ حیران آپ بھی۔ میں بھی ہو گئی۔ یہ احوال ایک شادی کا ہے جس میں ، میرے ساتھ میری ہمدم نگہت خان بھی شریک تھیں۔ یہ شادی ارم مسیح کی تھی جو ہم دونوں کے گھر کے کاموں میں ہماری مددگار یعنی Maid تھی۔ ہم دونوں رات گئے تک مسیحی برادری کی اس تقریب میں شریک تھے۔ جہاں ہم شاہد ہوئے ان کی کچھ ایسی روایات کے کہ جنہوں نے ہم دونوں کو بہت متاثر کیا۔ قصّہ مختصر یوں کہ کچھ خاندانی رسومات اور دعائیہ کلمات سے فارغ ہوکر ایک خوش رُو اور خوش گُلو نوجوان نے مائیک تھاما اور حاضرین کو نہایت عزت و احترام سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کو اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھنے کو کہا ساتھ میں یہ ہدایت بھی تھی کہ تمام لوگ اپنے اپنے بچوں کو اپنے ساتھ بٹھالیں کیونکہ کھانا لگنے والا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ لوگ پہلے ہی بڑٰی دیر سے آئے ہیں اس لئے مزید وقت ضایع نہ کریں۔ اس کے بعد وہ نوجوان یوں گویا ہوا 

’’ پیارے بہن بھائیوں، کھانا آپ لوگوں کی میزوں پر ہی پیش کردیا جائے گا۔ پیٹ بھر کر سکون کے ساتھ کھانا کھایئے لیکن ضائع نہ کیجئے۔ رزق ضایع کرنے کو خدا پسند نہیں کرتا‘‘

یہ بات اُس نے کئی دفعہ دہرائی، حاضرین میں سے کسی کی پیشانی پر بل نہیں پڑے، جس سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ مشق ان کے ہاں عام ہے۔ بہرحال کھانا پیش کیا گیا، حاضرینِ محفل نے نہایت سکون کے ساتھ کھانا کھایا۔ یقین کیجئے کوئی افرا تفری نہیں تھی۔ شادی ہال میں صرف کھانا پیش کرنے والے متحرک تھے۔ کھانا کھانے کے بعد میں نے خود اٹھ کر کئی میزوں کو دیکھا، کسی میز پر پلیٹوں میں بچا ہوا کھانا نظر نہیں آیا۔
دل کو بہت خوشی ہوئی، کاش یہ عمل عام ہوجائے اور لوگ اس کی اہمیت کو سمجھ جائیں۔

یہ تتلیوں جیسی لڑکیاں



یہ تتلیوں جیسی لڑکیاں


یہ لڑکیاں جنہیں میں بچیّاں کہنا زیادہ پسند کرتی ہوں۔تتلیوں جیسی خوش رنگ  جہاں جائیں ماحول کو رنگوں سے بھر 
دیں۔ اور جُگنو جیسی  روشنی سے بھرپور، اندھیروں کو شکست دیتی ہوئی لڑکیاں۔ کہنے کو صنفِ نازک مگر آہنی ارادوں والی، شفاف خیالوں والی۔جن کی نگاہیں اپنی اپنی منتخب کردہ  منزلوں پر مرکوز ہیں۔ جہیں اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں کوئی شک نہیں ہے کوئی شُبہ نہیں وہ   کٹھن رستوں پر چلنے پر  تیار ہیں، نہ صرف تیار ہیں بلکہ ان کٹھنائیوں کو اپنے 
ارداوں کی مضبوطی  اور مسلسل عمل سے سہل  بنانا بھی بخوبی جانتی ہیں۔یہ ہیں لڑکیاں ، یہ تتلیوں جیسی لڑکیاں۔

میں بھی کبھی ایک لڑکی تھی، میں  نے جیسا بننا چاہا بالکل ویسا نہ بن سکی، جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہا، وہ مکمل حاصل نہ 
کر سکی، لیکن آج اپنے آس پاس جب ان لڑکیوں کو دیکھتی ہوں تو بہت خوش ہوتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جو جو کمیاں مجھ 
میں رہیں وہ ان کو دیکھ کر مکمل ہو گئیں۔ یہ لڑکیاں میرے دل کو خوشی سے بھر دیتی ہیں۔ سکون کی لہریں میری 
روح میں اترنے لگتی ہیں۔ جب  یہ پیاری بچیاں کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں ذرّہ برابر بھی جھجھک نہیں کہ اس عمر میں میں نے ان لڑکیوں سے بہت کچھ سیکھا، اور سیکھنے کا اور 
متاثر کرنے کا یہ عمل مسلسل جاری ہے ۔  میں بہت خوش ہوتی ہوں ان کی قابلیت دیکھ کر ، ان کے احساسات جان کر، ان کے خیالات سُن کر، زندگی    کی طرف ان کا رویہ  دیکھ کر۔ انسانوں کیلئے ان کے جذبات دیکھ کر۔ مجھے کوئی عار نہیں یہ کہنے میں انہوں نے مجھے زندگی گزارنے کے الگ طریقے سکھائے، زندہ رہنے کیلئے الگ سلیقے بتائے۔ اور یہ بھی بتایا کہ صرف سانس لینا ہی زندگی نہیں،  زندہ رہنے کے لئے بھی کوئی مقصد ہونا ضروری ہے۔


یہ لڑکیاں ، یہ تتلیوں جیسی لڑکیاں، دیکھنے میں نازک مگر کوئی ان کے خیالات سنے، ان کے احساسات  سمجھے ، ان کے ارادے جانے تو حیران رہ جائے۔  اخلاق،  احساس، انصاف ، مساوات اور پیار سے مالامال ان کی شخصیات  مجھے تو کیا کسی کو بھی متاثر کرنے کیلئے کافی ہیں۔بس ذرا دھیان دینے کی دیر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لڑکیاں ، یہ تتلیوں جیسی لڑکیاں 
اپنے نرم و نازک پروں کے ساتھ ایک لمبی اڑان بھریں گی اور کامیابی کی بلندیوں تک پہنچیں گی۔












   رباب، طوبیٰ ، مکھے تاج، کومل، ضوفشاں،  صدف ، صبو اور انعم ، یہ میری بلند نصیبی ہے کہ تم  سب میری زندگی میں شامل ہو اور مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ  تم لوگوں نے نئی نسل کی کیلئے میری سوچ کو تبدیل کیا۔ میں نے تم سب سے بہت کچھ سیکھا ہے,  جس کیلئے شکریہ،  میری زندگی میں شامل سب لڑکیوں کے نام 

Tuesday, November 28, 2017
Posted by Fahmina Arshad

مجھے بہت ڈر لگنے لگا ہے !

Mother Praying


   !مجھے بہت ڈر لگنے لگا ہے 



چھٹی کے دن کی بیزاری کو کم کرنے کیلئے یونہی سُستی سے فیس بُک کا جائزہ لیتے لیتے ایک ایسی ویڈیو دیکھ لی کہ جس کو دیکھنے کے بعد گویا میرے سارے حواس خوف کے ایک بھاری پتھر کے نیچے دب گئے۔ سانس لینا بھی محال ہورہا تھا۔ آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔پھر اچانک جسم میں برق سی دوڑ گئی۔ بجلی کی پھرتی سے میں بچوں کے کمرے کی طرف دوڑی، بچوں کو سوتا ہوا دیکھا تو جان میں جان میں آئی۔آج دوسرا تیسرا دن ہے، کیفیت میں کوئی خاص فرق نہیں۔ جی چاہتا ہے بچوں کو سینے سے لگا کر بیٹھی رہوں اپنی آغوش میں اس طرح چھپالوں کہ کوئی تنکا بھی نہ چبھو سکے۔مگر ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مُنے تو ہیں نہیں کہ گود میں بھر لوں۔ ۱۷ سے ۲۰ سال کے نوجوان لڑکے ہیں ان کو کہاں چھپاؤں؟ اپنی کیفیت کسی کو کیسے بتاؤں؟ یہ خوف یہ ڈر کسی کے سامنے کیسے لاؤں؟ جو سُنے گا میری ہنسی اڑائے گا کہ خوب کہی بی بی یہ جوان لڑکے ہیں لڑکیاں نہیں !
اب انہیں کون سمجھائے کہ اس مملکتِ خداد پاکستان کے میٹروپولیٹن شہر کراچی میںیہ جوان لڑکے کس قدر غیر محفوظ ہیں۔



کھٹک تو دل میں اُسی دن آگئی تھی جب سننے میں آیا تھا کہ سندھ کے نئے سائیں کی طرف سے ڈاکوؤں کو دیکھتے ہی شوٹ کردینے کا حکم آیا ہے۔سوچ میں تو اُسی وقت پڑ گئی تھی کہ کون سی عینک لگا کر دیکھیں گے کہ دہکھتے ہی پتا چل جائے گا کہ کون ڈاکو ہے؟اس نگری میں جہاں گناہگار دھڑلّے سے گھومتے ہوں اور بے گناہ سزا پاتے ہوں وہاں اعتبار کس پر کریں گے؟ پولیس پر؟ جس کے اندر کالی بھیڑیں اتنی ہیں کہ اب تو پوری پولیس ہی کالی ہو گئی ہے اصلی رنگ کون جانے کیا تھا؟



وہ ویڈیو جو میں نے فیس بُک پر دیکھ لی تھی وہ اُس بد نصیب سعید عتیق اللہ اور عزیز اللہ کی تھی جنہیں دن دھاڑے سرِ عام پولیس کے ڈاکوؤں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔سُنا ہے عزیز زخمی ہوا پر بیچارہ سعید عتیق اللہ جان سے گیا۔ کیا خطا تھی ان بچوں کی؟ پولیس نے کہا ڈاکو تھے۔ بتایا گیا کہ چھُری ، چاقو ، پستول ، بندوق تو چھوڑیں پانی کی پستول یا ناخن تراش تک نہ نکلا ان کے پاس سے۔عتیق اللہ رینجرز کالج میں پڑھتا تھا، کیڈٹ تھا اس دن وہ بچے ٹیوشن پڑھنے نکلے تھے گھر سے اور ظالموں نے خون سے نہلا دیا۔ داد دیتی ہوں اس تماش بین کے حوصلے کی کہ جس نے ان تڑپتے بچوں کی ویڈیو بنائی اور پھر اس کی نمائش بھی کر ڈالی۔



دن ہو یا رات میں اب سو نہیں پاتی ہوں، آنکھیں بند کرتے ہی عزیز اللہ اور سعید عتیق اللہ کی تڑپتے ہوئے خون سے بھرے جسموں پر میرے بچوں کے چہرے لگ جاتے ہیں۔ میرے بچے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو خوف سے میرا دل بند ہونے لگتا ہے۔ بار بار انہیں فون کرکے خیریت معلوم کرتی ہوں اس وقت تک چین کی سانس نہیں آتی جب تک کہ بچے گھر کو لوٹ نہ آئیں۔بچے ہنستے ہیں میرا مذاق بھی اڑاتے ہیں، تسلی بھی دیتے ہیں لیکن اس ماں کے دل کو اب کوئی تسلی کوئی دلیل بہلا نہیں سکتی، سمجھا نہیں سکتی۔



عتیق اللہ کی ماں کو میں نے نہیں دیکھا لیکن اس کا درد میرے دل کو بھاری کردیتا ہے، اس کے آنسو میری آنکھوں سے بہتے ہیں۔ہاں ! میں نے ان قاتلوں کو دیکھا جنہوں نے ایک ماں کے لال کو مٹی میں ملا دیا لیکن ان کے چہروں پر پشیمانی کا شائبہ تک نہ تھا۔ میں حیران نہیں ہوں کیونکہ انسانی جان کی ارزانی کوئی نئی بات تو نہیں !
میں پریشان بھی نہیں ہوں کیونکہ زندگی کا تو دوسرا نام ہی امتحان ہے۔ مجھے بس ڈر لگنے لگا ہے۔ ۔ ۔ 



اتنی محنت، جدوجہد اور محبت کے پالے بچے کیا اس طرح مٹی میں روندے جائیں گے؟ 
مجھے معلوم ہے زندگی موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس طرح کی موت؟
یا اللہ مجھے بہت ڈر لگنے لگا ہے !!!


Tuesday, October 11, 2016
Posted by Fahmina Arshad

عورت کو غیرت کیوں نہیں آتی ؟


there is no honor in killing



عورت کو غیرت کیوں نہیں آتی !


غیرت کے نام پر صرف عورتیں ہی 

 قتل کیوں ہوتی ہیں؟   یہ سوال بار بار

 ایک کیڑے کی طرح میرے دماغ میں

 کلبلاتا رہتا ہے۔ میں اپنے آپ سے یہ 

سوال بار بار کرتی  ہوں مگر جواب ندارد۔کتابوں میں بھی ڈھونڈا، سیانوں سے بھی پوچھا، حکیم ڈاکٹروں سے بھی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ عورت کا معاملہ ہو تو ہر قسم کی غیرت صرف مردوں میں ہی جاگتے دیکھی، بھائی ہوں ، باپ ہوں یا شوہر نامدار سب کے سب با غیرت نکلے۔اور بے غیرتی صرف عورت کے حصے میں آئی ۔

 بُری عورت کی اصطلاح  نے بھی جنم لے لیا کیونکہ مرد تو بُرا ہوتا ہی نہیں۔گویا عورت اپنے ساتھ برائی لے کر پیدا 

ہوئی اور اس کی برائی میں کوئی شریک ِ کار نہیں کوئ سہولت کار نہیں وہ اکیلی ہی اپنے گناہوں کی ذمہ دار ٹھہری۔

یہ وہ واحد گناہ ہے کہ جس میں صرف ایک ہی فریق کو ذمہ دار اور گناہگار مانا  اور جانا جاتا ہے ۔ یہ تو معاملہ ہے 

معاشرے کی سطح پر۔

گھروں اور خاندانوں میں تو اس بُری عورت کو سزا دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی جاتی اور دامے درمے سخنے اس کی 

مرمت ہوتی  ہی رہتی ہے۔ روز مرہ کی گالی گلوچ ، مار کُٹائی سے لے کرہر قسم کا تشدد اور قتل  سب جائز ہے کیونکہ

 مرد کو غیرت آتی ہے۔

آخر اس بے غیرت عورت کو غیرت کیوں نہیں آتی؟

علی شریعتی کہتے ہیں ’’ مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ کوئی عورت گناہ کرتی ہے مگر اُس کو چھپانے

 کیلئے داڑھی نہیں  رکھ سکتی ۔‘‘

خیر یہ تو ایک  حوالہ تھا اور  اس داڑھی سے  بھی مجھے کوئی غرض نہیں ، سمجھنے کی بات یہ ہے  مرد سب کچھ کرکے

  بھی مکھن سے بال کی طرح صاف نکل جاتا ہے اور پھنس جاتی ہے یہ بے وقوف عورت۔

بہن ہوکر بھائی کے خطوط خوشی سے اس کی محبوبہ کو پہنچاتی ہے۔ بیوی ہوکر خاوند کی بد کاریوں پر پردہ ڈالتی ہے اور 

طوائف ہو تو مردوں کی دل پشور ی کا سامان تو ہے ہی۔مگر مجال ہے جو ذرا سی بھی غیرت  آئے۔ اگر اس جگہ کوئی

 مرد ہوتا تو لاشیں گرا دیتا۔ غیرت مند جو ٹھہرا !

تازہ مثال  قندیل بلوچ کی ہے، سُنا ہے بہت ہی بُری  عورت تھی ، سارا  زمانہ جانتا تھا، سُنا ہے بڑی بے باک تھی کبھی

 اپنی برائی کو چھپایا بھی نہیں  ماں باپ  بھائی بہنوں کی  پوری ذمہ داری اٹھاتی تھی مگر بھائی کی غیرت اس وقت جاگی 

جب  اس کو  نشے کیلئے پیسے دینا بند کر دیئے۔ غیرت مند بھائی تھا برداشت نہ کرسکا اور اس  بُری عورت کو دنیا سے 

ہی اٹھا دیا۔کمال کردیا !

کاش ! ایک دن ایسا بھی آئے کہ کچھ عورتوں کو بھی غیرت آئے

شیخ چلی کا خواب صحیح، دیکھنے میں کیا حرج ہے!













  








The most common myths about Muslim women and why they’re wrong

When I read this article on "Raw Women"... a beautifully written article with very well explained facts and decide to share it on my blog so more and more can read this and know the details.


 (Fahmina arshad)





The most common myths about Muslim women and why they’re wrong


Myth: Muslim women are all oppressed

The most common myths about Muslim women and why they’re wrong Myth: Muslim women are all oppressed

The western perception of Muslim women is often contradictory. Although generally pitied as objects of oppression, visibly Muslim women also bear the brunt of anti-Islam sentiment. Last week two Australian Muslim women, Randa Abdel-Fattah, and Anne Azza-Aly appeared on ABC’s Q&A and expertly cut through many of the myths and distortions surrounding Islam and terrorism. As the tension mounts in the wake of Australia’s recent “terror raids”,I enlisted the help of Randa, a former lawyer and current PhD student, and Anne, a counter-terrorist researcher, in order to dismantle some of the common myths around Muslim women.
Myth: Muslim women are all oppressed
The assumption that all Muslim women are oppressed owes much to Islamic dress requirements (hijab). While the Quran calls for both men and women to be “modest,” in practice it is primarily women’s dress that is policed, and the various denominations have differing interpretations of what this means. While women belonging to the small Alawite sect stopped wearing any form of hijab in the 1960s, Sunni Islam (which encompasses Salafism, by far the strictest interpretation), has seen a trend towards ever-more conservative dress, with more and more women covering their face as well as hair.
It should go without saying that any woman who is forced, whether by the state or her own family, to wear the burqa or headscarf is indeed oppressed. Nonetheless, many Muslim women do choose to veil of their own volition. That this choice is required only of women does lead to legitimate questions of whether such a choice can actually be free. However, Randa cautions that, “We are all subject to the influence of certain norms and expectations about how we dress, behave, express ourselves…I don’t think much of any of our decisions are completely ‘free’ whether we wear hijab or don’t, whether we are religious or not.”
In other words, all of our choices are limited by the patriarchal society we live in. The perception that all Muslim women are subjugated is linked to the mistaken belief that the liberation of women in the west is complete. However, the idea that women’s bodies exist largely as sexual objects is just as entrenched in the west as it is Muslim societies, the difference is that Muslim women are called upon to conceal their sexuality whilst western women are encouraged to exploit it.
Overturning these systems of oppression is not as simple as banning certain items of clothing. Just as western women took the reigns of their liberation into their own hands, so too must those Muslim women who feel constrained by their culture. Anne says one way for Muslim women to do this is “to start a discourse on the niqab (burqa) that takes it away from the question of rights and looks into the political symbolism of it and the religious interpretations.” Ironically, the more the west fixates on the burqa and attempts to dictate what Muslim women should wear, which only serves to put Muslims on the defensive, the more Muslim woman are actually denied the opportunity to have this conversation.
Myth: Muslim women are (or should be) uneducated.
While anyone who saw last weeks’ Q&A would know that Randa and Anne put paid to this notion, the perception that Islam itself frowns on women’s education is fanned by the hostility towards women’s education in some Muslim nations.
“It is a travesty that Muslim majority countries have forgotten or chosen to ignore the rich history of Islamic jurisprudence which featured at the centre- not in the periphery- so many amazing Muslim women,” says Randa, “There is a huge gap between Islamic doctrine, our history and what we see today.”
Indeed, the world’s oldest university was founded by a Muslim woman in the 9th century, and today, Muslim women are working tirelessly to ensure women have access to education. This includes, of course, Malala Yousafzai, but also women like Sakeena Yacoobi, founder of the Afghan Institute for Learning, which began surreptitiously educating girls under the Taliban in the 1990s.
2214288329_e00c93ce86

The sad truth is, misogynistic fundamentalists deny women (and some men) their education simply because it makes it all the easier to oppress them. This, however, far from being sanctioned by Islamic doctrine, is actually in opposition to it: the first words in the Quran are, “Read. Read in the name of your Lord.”
Myth: Muslim women are a security risk
When Liberal Senator Cory Bernardi used the recent “terror raids” to once again call for a ban on the burqa, he was quickly joined by PUP Senator Jacqui Lambie, with both claiming the veil is a security risk.
Anne says that while some Arab countries have indeed banned the burqa for security reasons, Australia has “not had any incidences to warrant a level of concern.” Furthermore, “there are some very high level fatwa’s (religious decrees) that dictate that the niqab (burqa) should be removed in circumstances that require identification for security or medical purposes. So religiously there is already an avenue for mitigating risks associated with wearing face coverings.”
The upshot is, there is no point blaming women for terrorist activity perpetrated primarily by men. “There is no proven relationship between terrorism and niqab wearing,” Anne says. “It really is a non-issue.”
Myth: Muslim women are inferior to men
Growing up as an Alawite Muslim, I certainly felt my brothers were given preferential treatment. However, I also recall that the reasons (or excuses), given by my parents were more related to status and reputation than religion, including the all-too familiar refrain, But we can’t let you go out! What will people say?
There is a fine line between culture and religion. My friend Sofia, a university lecturer, says that religion is culture, and that regarding it as a separate phenomenon only obscures the reality – that human societies shape and modify religion according to their own peculiarities and practices (which is indeed what we are seeing with modern terrorist groups).
But that doesn’t change the fact that the often-abhorrent treatment of women in Muslim societies is largely at odds both with Islamic history and with what is written in the Quran. Whilst I view Islam through a secular rather than spiritual lens, for Randa, every day is “a struggle to reconcile my deep conviction in, and devotion to, the Islamic faith with the sickening reports of abuses of many women in the name of Islam.”
However, she adds, “Not for a moment do I think that the oppression and brutality directed against women stem from sincerely held religious beliefs. Whether it is targeting girls who seek an education in Afghanistan or treating women like second-class citizens in Saudi Arabia, the fact is that the oppression of women is essentially about coveting power and dominating women.”
For all their differences, the underpinnings of both Muslim and western societies are fundamentally the same, for each is built on the shaky foundation of patriarchy. As much as we like to blame religion for much of the world’s ills, the truth is, much of what we recognise as religious oppression is actually cultural misogyny.
On that note, I’ll leave the last word to Randa, who calls for, “A kind of radical surgery in Muslim countries in order to remove the festering, diseased pustule of patriarchy that attempts to define one half of society as walking sex organs…This would entail promoting theologically grounded arguments that would empower women to make dignified choices based on their own religious tradition.”
Amen.

To read from the origional location please click here 

مُحلّے اور مُحلّہ داریاں ۔۔۔ ایک قصّہء پارینہ

مُحلّے اور مُحلّہ داریاں ۔۔۔ ایک قصّہء پارینہ

 
آج کل کی نوجوان نسل کیلئے تو واقعی یہ کوئی دیو مالائی کہانی جیسا ہی ہو۔یہ کوئی ایک دو صدی پہلے کی بات نہیں بس کچھ عشرے پہلے تک مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے یہ سب کچھ ہوش و حواس میں دیکھا ہوگا ، ان کا لطف اُٹھایا ہوگا اور یقیناً اب ان کے ناپید ہونے سے معاشرے میں ایک خلاء بھی محسوس کرتے ہوں گے۔۔آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں یہ سب خواب سا محسوس ہوتا ہے۔ وہ لوگ، آپس کا پیار، ایثار، خیال ، احساس سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔

متوسط طبقے کے اُن محلوں میں لوگ اس طرح رہتے تھے گویا آپس میں خون کا رشتہ ہو۔ دُکھ مل جل کے بانٹے جاتے تھے، خوشیاں مل جل کے منائی جاتی تھیں۔ ضرورت مند کی ضرورت ایسے پوری کی جاتی تھی کہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی۔ایک ہی محلے میں خالہ خالو، ماموں مُمانی ، چچا چچی، دادا دادی، نانا نانی ، پھوپی، بھائی باجی غرض کون سا رشتہ تھا جو نہ پایا جاتا ہو۔ کہنے کو گویا زبانی رشتے تھے لیکن جس طرح نبھائے جاتے تھے اس کی مثال نہیں ملتی۔کسی کے گھر میلاد ہے، جگت نانی نے محلے کی لڑکیوں بالیوں کو جمع کیا اور پہنچ گئیں میلاد پڑھنے۔ نہ لڑکیوں کو ہچکچاہٹ نہ ماں باپ کو کوئی اعتراض۔بیٹیاں بہنیں سب کی سانجھی، مجال ہے جو کوئی نظر بھر کے دیکھ لے۔چچا اکبر دفتر جاتے وقت باجی شکیلہ کو کالج چھوڑ دیتے تو کبھی احمد بھائی منی کو اسکول چھوڑ آتے۔ سودا سلف لانا ہو یا کسی کی شادی کی خریداری مدد کیلئے ہاتھ ہر وقت تیار رہتے۔ نہ کسی کو وقت کی تنگی کا شکوہ نہ کسی کو مصروفیت کا بہانا۔ بڑی دادی کے پاس سب بچے بچیاں قرآن پڑھنے جاتے، سبق پورا کیا اور دادی کا کام بھی نپٹا دیا، لڑکیوں نے جلدی جلدی جھاڑو پوچھا کیا تو لڑکوں نے سودا سلف لادیا اور بھی جو کام دادی نے کہا ادب سے پورا کیا۔

موسم کی سوغات ہو یا روزمرہ کا کھانا، رمضان کی افطاری ہو یا عید کی سوّیاں ایک دو سرے کو کھلائے بغیر کسی کا لقمہ حلق سے نیچے نہ جاتا ۔ کبھی کبھی تو فرمائش کرکے پکوان پکوائے جاتے۔ بھابھی رئیسہ بھرواں کریلے بہت مزیدار بناتی تھیں اس لیے کوئی نہ کوئی بھرواں کریلوں کا سامان لئے بھابھی کی خدمت میں حاضر اور بھابھی بھی بڑے مان سے ان فرمائشوں کو پورا کرتیں۔ سہہ پہر کے وقت اگر چچی کا مدثر نہ مل رہا ہو تو آنکھ بند کرکے خواجہ صاحب کے گھر چلے جاؤ موصوف عادت کے مطابق پلنگ کے نیچے سوتے ملتے۔ گرمیوں کی لمبی دوپہر میں امینہ چچی کے گھر کے صحن میں بادام کے درخت کے نیچے ایک جھولا چارپائی میں نائلہ اور اس کی سہیلیاں پڑی رہتیں اور مصالحہ لگا لگا کر کچے پکے بادام کھاتیں۔مہتاب نایاب کی شادی کا موقع آیا ۔ شادی کے جوڑے ثمینہ آپی نے پیک کئے دوپٹے شہناز نے ٹانک دیئے۔ مہندی کلثوم نے لگا دی اورشادی کے دن ناہید باجی نے دلہن تیار کردی لو بھئی سب کام ہو گئے، محلے کی بیٹی کی رخصتی کا فریضہ مل جل کر اس طرح ادا کیا جاتا گویا سب ہی کی بیٹی ہو۔ نہ کوئی تیرا نہ میرا جو بھی ہے سب کا سانجھا ہے۔

غرض ایسی ان گنت باتیں ہیں جو لکھنے بیٹھو ں تو صفحہ کہ صفحہ کالے ہوجائیں پر باتیں نہ ختم ہوں۔ نام نہاد ترقی نے ان سب خوبصورت رشتوں کو اس طرح کچل دیا ہے کہ اگر کوشش کی بھی جائے تو انکی اصل شکل کو دوبارہ نہیں بنا پائیں گے۔


About Author

Fahmina Arshad is Blogger, Social Media Activist, Women Rights activist, women rights defender, feminist, women issues advisor and ambitious to work for Women Growth in Pakistan.

Popular Post

Copyright © Enough !!! Powered by JazzMak - Template by EmBlogger.com | Jaiser.