Showing posts with label family. Show all posts
مُحلّے اور مُحلّہ داریاں ۔۔۔ ایک قصّہء پارینہ
مُحلّے اور مُحلّہ داریاں ۔۔۔ ایک قصّہء پارینہ
آج کل کی نوجوان نسل کیلئے تو واقعی یہ کوئی دیو مالائی کہانی جیسا ہی ہو۔یہ کوئی ایک دو صدی پہلے کی بات نہیں بس کچھ عشرے پہلے تک مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے یہ سب کچھ ہوش و حواس میں دیکھا ہوگا ، ان کا لطف اُٹھایا ہوگا اور یقیناً اب ان کے ناپید ہونے سے معاشرے میں ایک خلاء بھی محسوس کرتے ہوں گے۔۔آج کل کے نفسا نفسی کے دور میں یہ سب خواب سا محسوس ہوتا ہے۔ وہ لوگ، آپس کا پیار، ایثار، خیال ، احساس سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔
متوسط طبقے کے اُن محلوں میں لوگ اس طرح رہتے تھے گویا آپس میں خون کا رشتہ ہو۔ دُکھ مل جل کے بانٹے جاتے تھے، خوشیاں مل جل کے منائی جاتی تھیں۔ ضرورت مند کی ضرورت ایسے پوری کی جاتی تھی کہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہوتی۔ایک ہی محلے میں خالہ خالو، ماموں مُمانی ، چچا چچی، دادا دادی، نانا نانی ، پھوپی، بھائی باجی غرض کون سا رشتہ تھا جو نہ پایا جاتا ہو۔ کہنے کو گویا زبانی رشتے تھے لیکن جس طرح نبھائے جاتے تھے اس کی مثال نہیں ملتی۔کسی کے گھر میلاد ہے، جگت نانی نے محلے کی لڑکیوں بالیوں کو جمع کیا اور پہنچ گئیں میلاد پڑھنے۔ نہ لڑکیوں کو ہچکچاہٹ نہ ماں باپ کو کوئی اعتراض۔بیٹیاں بہنیں سب کی سانجھی، مجال ہے جو کوئی نظر بھر کے دیکھ لے۔چچا اکبر دفتر جاتے وقت باجی شکیلہ کو کالج چھوڑ دیتے تو کبھی احمد بھائی منی کو اسکول چھوڑ آتے۔ سودا سلف لانا ہو یا کسی کی شادی کی خریداری مدد کیلئے ہاتھ ہر وقت تیار رہتے۔ نہ کسی کو وقت کی تنگی کا شکوہ نہ کسی کو مصروفیت کا بہانا۔ بڑی دادی کے پاس سب بچے بچیاں قرآن پڑھنے جاتے، سبق پورا کیا اور دادی کا کام بھی نپٹا دیا، لڑکیوں نے جلدی جلدی جھاڑو پوچھا کیا تو لڑکوں نے سودا سلف لادیا اور بھی جو کام دادی نے کہا ادب سے پورا کیا۔
موسم کی سوغات ہو یا روزمرہ کا کھانا، رمضان کی افطاری ہو یا عید کی سوّیاں ایک دو سرے کو کھلائے بغیر کسی کا لقمہ حلق سے نیچے نہ جاتا ۔ کبھی کبھی تو فرمائش کرکے پکوان پکوائے جاتے۔ بھابھی رئیسہ بھرواں کریلے بہت مزیدار بناتی تھیں اس لیے کوئی نہ کوئی بھرواں کریلوں کا سامان لئے بھابھی کی خدمت میں حاضر اور بھابھی بھی بڑے مان سے ان فرمائشوں کو پورا کرتیں۔ سہہ پہر کے وقت اگر چچی کا مدثر نہ مل رہا ہو تو آنکھ بند کرکے خواجہ صاحب کے گھر چلے جاؤ موصوف عادت کے مطابق پلنگ کے نیچے سوتے ملتے۔ گرمیوں کی لمبی دوپہر میں امینہ چچی کے گھر کے صحن میں بادام کے درخت کے نیچے ایک جھولا چارپائی میں نائلہ اور اس کی سہیلیاں پڑی رہتیں اور مصالحہ لگا لگا کر کچے پکے بادام کھاتیں۔مہتاب نایاب کی شادی کا موقع آیا ۔ شادی کے جوڑے ثمینہ آپی نے پیک کئے دوپٹے شہناز نے ٹانک دیئے۔ مہندی کلثوم نے لگا دی اورشادی کے دن ناہید باجی نے دلہن تیار کردی لو بھئی سب کام ہو گئے، محلے کی بیٹی کی رخصتی کا فریضہ مل جل کر اس طرح ادا کیا جاتا گویا سب ہی کی بیٹی ہو۔ نہ کوئی تیرا نہ میرا جو بھی ہے سب کا سانجھا ہے۔
غرض ایسی ان گنت باتیں ہیں جو لکھنے بیٹھو ں تو صفحہ کہ صفحہ کالے ہوجائیں پر باتیں نہ ختم ہوں۔ نام نہاد ترقی نے ان سب خوبصورت رشتوں کو اس طرح کچل دیا ہے کہ اگر کوشش کی بھی جائے تو انکی اصل شکل کو دوبارہ نہیں بنا پائیں گے۔
Sunday, September 21, 2014
Posted by Fahmina Arshad