Showing posts with label young boys. Show all posts

مجھے بہت ڈر لگنے لگا ہے !

Mother Praying


   !مجھے بہت ڈر لگنے لگا ہے 



چھٹی کے دن کی بیزاری کو کم کرنے کیلئے یونہی سُستی سے فیس بُک کا جائزہ لیتے لیتے ایک ایسی ویڈیو دیکھ لی کہ جس کو دیکھنے کے بعد گویا میرے سارے حواس خوف کے ایک بھاری پتھر کے نیچے دب گئے۔ سانس لینا بھی محال ہورہا تھا۔ آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔پھر اچانک جسم میں برق سی دوڑ گئی۔ بجلی کی پھرتی سے میں بچوں کے کمرے کی طرف دوڑی، بچوں کو سوتا ہوا دیکھا تو جان میں جان میں آئی۔آج دوسرا تیسرا دن ہے، کیفیت میں کوئی خاص فرق نہیں۔ جی چاہتا ہے بچوں کو سینے سے لگا کر بیٹھی رہوں اپنی آغوش میں اس طرح چھپالوں کہ کوئی تنکا بھی نہ چبھو سکے۔مگر ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مُنے تو ہیں نہیں کہ گود میں بھر لوں۔ ۱۷ سے ۲۰ سال کے نوجوان لڑکے ہیں ان کو کہاں چھپاؤں؟ اپنی کیفیت کسی کو کیسے بتاؤں؟ یہ خوف یہ ڈر کسی کے سامنے کیسے لاؤں؟ جو سُنے گا میری ہنسی اڑائے گا کہ خوب کہی بی بی یہ جوان لڑکے ہیں لڑکیاں نہیں !
اب انہیں کون سمجھائے کہ اس مملکتِ خداد پاکستان کے میٹروپولیٹن شہر کراچی میںیہ جوان لڑکے کس قدر غیر محفوظ ہیں۔



کھٹک تو دل میں اُسی دن آگئی تھی جب سننے میں آیا تھا کہ سندھ کے نئے سائیں کی طرف سے ڈاکوؤں کو دیکھتے ہی شوٹ کردینے کا حکم آیا ہے۔سوچ میں تو اُسی وقت پڑ گئی تھی کہ کون سی عینک لگا کر دیکھیں گے کہ دہکھتے ہی پتا چل جائے گا کہ کون ڈاکو ہے؟اس نگری میں جہاں گناہگار دھڑلّے سے گھومتے ہوں اور بے گناہ سزا پاتے ہوں وہاں اعتبار کس پر کریں گے؟ پولیس پر؟ جس کے اندر کالی بھیڑیں اتنی ہیں کہ اب تو پوری پولیس ہی کالی ہو گئی ہے اصلی رنگ کون جانے کیا تھا؟



وہ ویڈیو جو میں نے فیس بُک پر دیکھ لی تھی وہ اُس بد نصیب سعید عتیق اللہ اور عزیز اللہ کی تھی جنہیں دن دھاڑے سرِ عام پولیس کے ڈاکوؤں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔سُنا ہے عزیز زخمی ہوا پر بیچارہ سعید عتیق اللہ جان سے گیا۔ کیا خطا تھی ان بچوں کی؟ پولیس نے کہا ڈاکو تھے۔ بتایا گیا کہ چھُری ، چاقو ، پستول ، بندوق تو چھوڑیں پانی کی پستول یا ناخن تراش تک نہ نکلا ان کے پاس سے۔عتیق اللہ رینجرز کالج میں پڑھتا تھا، کیڈٹ تھا اس دن وہ بچے ٹیوشن پڑھنے نکلے تھے گھر سے اور ظالموں نے خون سے نہلا دیا۔ داد دیتی ہوں اس تماش بین کے حوصلے کی کہ جس نے ان تڑپتے بچوں کی ویڈیو بنائی اور پھر اس کی نمائش بھی کر ڈالی۔



دن ہو یا رات میں اب سو نہیں پاتی ہوں، آنکھیں بند کرتے ہی عزیز اللہ اور سعید عتیق اللہ کی تڑپتے ہوئے خون سے بھرے جسموں پر میرے بچوں کے چہرے لگ جاتے ہیں۔ میرے بچے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو خوف سے میرا دل بند ہونے لگتا ہے۔ بار بار انہیں فون کرکے خیریت معلوم کرتی ہوں اس وقت تک چین کی سانس نہیں آتی جب تک کہ بچے گھر کو لوٹ نہ آئیں۔بچے ہنستے ہیں میرا مذاق بھی اڑاتے ہیں، تسلی بھی دیتے ہیں لیکن اس ماں کے دل کو اب کوئی تسلی کوئی دلیل بہلا نہیں سکتی، سمجھا نہیں سکتی۔



عتیق اللہ کی ماں کو میں نے نہیں دیکھا لیکن اس کا درد میرے دل کو بھاری کردیتا ہے، اس کے آنسو میری آنکھوں سے بہتے ہیں۔ہاں ! میں نے ان قاتلوں کو دیکھا جنہوں نے ایک ماں کے لال کو مٹی میں ملا دیا لیکن ان کے چہروں پر پشیمانی کا شائبہ تک نہ تھا۔ میں حیران نہیں ہوں کیونکہ انسانی جان کی ارزانی کوئی نئی بات تو نہیں !
میں پریشان بھی نہیں ہوں کیونکہ زندگی کا تو دوسرا نام ہی امتحان ہے۔ مجھے بس ڈر لگنے لگا ہے۔ ۔ ۔ 



اتنی محنت، جدوجہد اور محبت کے پالے بچے کیا اس طرح مٹی میں روندے جائیں گے؟ 
مجھے معلوم ہے زندگی موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس طرح کی موت؟
یا اللہ مجھے بہت ڈر لگنے لگا ہے !!!


Tuesday, October 11, 2016
Posted by Fahmina Arshad

About Author

Fahmina Arshad is Blogger, Social Media Activist, Women Rights activist, women rights defender, feminist, women issues advisor and ambitious to work for Women Growth in Pakistan.

Popular Post

Copyright © Enough !!! Powered by JazzMak - Template by EmBlogger.com | Jaiser.